چونکہ اس تکلیف دہ بیماری کا باعث بننے والے عوامل بہت سے ہیں لہذا اس کے علاج یا اس کی مینجمنٹ کے بھی طریقے بھی بہت سے ہیں۔ آپ کو ان سب طریقوں پر عمل کرنا ہو گا۔
شاہد وفا
زندگی کو حوصلے کے بل پر جیا جاتا ہے اور ڈپریشن میں انسان سب سے پہلے حوصلہ ہی ہارتا ہے۔ اب وہ کیا کرے۔ اس بیماری کا سامنا کرنے کے لیے ہمت کہاں سے لائے جو وار ہی جینے کی امنگ پر کرتی ہے۔ ادویات لے، نفسیاتی ماہر کی باتوں سے علاج کروائے، ورزش کرے، عبادت میں دل لگائے یا بس ہمت کر لے۔ کیا کرے؟
یہ وہ سوال ہیں جو پہلے سے ڈپریشن کی اذیت میں مبتلا ذہن کو مزید نڈھال کر دیتے ہیں اور کوئی حتمی جواب نہیں ملتا۔ کڑوی حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کا کوئی حتمی جواب ہے ہی نہیں۔
سائیکیٹرسٹ اس مرض کے علاج کے لیے دوائیں تجویز کرتے ہیں جبکہ سائیکالوجسٹ سوچ کے انداز میں تبدیلی کے ذریعے اس کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ طرز زندگی میں مثبت تبدیلیاں، ورزش، یوگا، عبادت، قناعت اور تسلیم و رضا۔ یہ سب بھی تجویز کیا جاتا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی تجویز بھی بیماری کو مکمل طور پر ختم نہیں کرتی۔
بہت سے مریضوں کے لیے ڈپریشن زندگی بھر کا ساتھ ہوتا ہے۔ کرب مسلسل کی طرح۔ لہذا ماہرین کے مطابق اس سے مکمل چھٹکارے کا خیال دل سے نکال کر اس کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سیکھ لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
آپ کو معالج نے دوائیں تجویز کی ہیں تو دوا کھائیں۔ جب تک اثر کرتی ہیں کھاتے رہیں۔ پھر ایک وقت آئے گا جب یہ دوائیں اپنا اثر کھودیں گی۔ اس پر مایوس نہ ہوں۔ ایسا ہونا بالکل معمول کی بات ہے۔ ایسی صورت میں معالج کے مشورے سے زیادہ ڈوز یا بالکل نئی دوا کا استعمال فائدہ دے سکتا ہے۔ دوا کے استعمال سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ آخر بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مریض بھی تو ساری عمر ادویات لیتے رہتے ہیں۔ اس دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے بھی ہیں جن کا ڈپریشن ڈرگ ریزسٹنٹ ہوتا ہے۔ یعنی دو یا دو سے زیادہ مختلف نوعیت کی ادویات کے استعمال سے بھی ان کی علامات بہتر نہیں ہوتیں۔ لہذا اگر آپ کا ڈپریشن دوا سے ٹھیک ہو جائے تو اس پر شکر ادا کریں۔
اگر معالج کے نزدیک آپ کو دوا سے زیادہ اپنی سوچ کے انداز پر کام کرنے کی ضرورت ہے تو اس پر عمل کریں اور اپنے خیالات کو مثبت بنائیں۔ نفسیاتی معالج آپ کو اپنے ذہن اور اپنی سوچوں پر قابو پانا سکھائیں گے۔ ان کی بات سنیں اور اس پر عمل کریں۔ یہاں تہائی صبر آزما طریقہ علاج ہے۔ اس میں وقت لگتا ہے لیکن فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر کسی کو کبھی کچھ نہیں ملا۔ آپ کے پاس بھی صبر اور عمل کے سوا دوسری کوئی آپشن نہیں ہے۔ کوشش کرتے رہیں۔ کوششیں ضرور کامیاب ہوتی ہیں۔
ورزش، یوگا اور طرز زندگی میں تبدیلی بھی اپنا اثر رکھتی ہے۔ لیکن ان سب کاموں کا مشورہ دینا آسان اور نا امیدی کے مریض کے لیے اس پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن پھر اس صورتحال کا کوئی دوسرا حل بھی کیا ہے؟ اور کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ اپنے وجود کو خود گھسیٹ کر بستر یا کمرے کے کسی کونے سے باہر نکالیں اور کام میں لگ جائیں۔ گہرے سانس لیں۔ ورزش کریں۔ نہیں ہوتی پھر بھی کریں۔ اگر کوئی آپ کو اس صورتحال سے نکال سکتا ہے تو وہ صرف آپ کی اپنی ذات ہے۔ آپ کے لیے ابھی کوئی جادوئی دوا دریافت نہیں ہوئی۔ لہذا اٹھیں اور اس بیماری کے خلاف ڈٹ جائیں۔
کچھ لوگ قناعت اور تسلیم و رضا کی بات بھی کرتے ہیں۔ کسی روز ان کی بات بھی سن کر دیکھیں۔ یہ لوگ آپ کو بتائیں گے کہ انسان کا اختیار محدود ہے۔ اسے اس زندگی میں بہت کچھ تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ کر لے تو اسی کا بھلا ہے۔ نہ کرے تو پھر اطمینان قلب مشکل ہے۔
یہ بات صرف مذہب ہی نہیں بلکہ نفسیات دان بھی کہتے ہیں۔ علم نفسیات میں مان لینے، صورتحال کو تسلیم کر لینے کی تلقین تھراپی کا اہم حصہ تصور ہوتا ہے۔ اس سے انسان کو پچھتاووں، افسوس، قلق، اور غم سے نجات پانے میں مدد ملتی ہے۔
یاسیت اور نا امیدی کے مرض کی بہت سی وجوہات میں موروثی عوامل، ہارمونز میں عدم توازن، پریشان کن حالات اور مسلسل ذہنی دباؤ شامل ہیں۔ چونکہ اس تکلیف دہ بیماری کا باعث بننے والے عوامل بہت سے ہیں لہذا اس کے علاج یا اس کی مینجمنٹ کے بھی طریقے بھی بہت سے ہیں۔ آپ کو ان سب طریقوں پر عمل کرنا ہو گا۔ جس طریقے سے زیادہ فائدہ محسوس ہو اس کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ اس مرض کا کوئی ایک علاج نہیں ہے۔ بے شمار طریقے ہیں اور سارے ہی کسی نا کسی حد تک فائدہ مند ہیں۔ ان سب کو بروئے کار لائیں۔ زندگی رفتہ رفتہ جینے کے قابل لگنے لگے گی۔