رینالہ خورد کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب شوگر ملوں نے ان کی فصل کی قیمت ادا کرنے میں دو دو سال کا عرصہ بھی لگایا۔ شوگر ملوں سے ملنے والی آمدن اتنی قلیل اور اتنی تاخیر سے ہوتی تھی کہ بعض اوقات کسان اپنی فصل کو چارے کے طور پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم اب ایسا نہیں ہو گا۔
شاہد وفا
اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد میں گنے کے کاشتکار ان دنوں بہت مصروف اور پرجوش ہیں۔ کماد کی فصل کٹ چکی ہے اور اب کسانوں کو ان کی محنت کا اجر ملنے کا وقت ہے۔ لیکن اس سال انہیں اپنی محنت کے صلے کے لیے شوگر ملوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑے گا۔ اب وہ گنے کے رس سے گڑ بنانے میں آزاد ہیں اور اور یہ آزادی انہیں گزشتہ ماہ لاہور ہائی کورٹ نے مہیا کی تھی۔
عدالت نے گزشتہ ماہ چینی کی قیمتوں کے تعین کا مقدمہ سنتے ہوئے گنے سے گڑ بنانے پر پابندی کے قانون کو ملکی آئین اور شہریوں کے آزادانہ کاروبار کرنے کے حق سے متصادم قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔ لیکن یہ قانون کب بنا تھا، ایسے کسی قانون کی ضرورت ہی کیا تھی اور اس کی منسوخی کے زرعی شعبے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آئیے جانتے ہیں۔
گنے کے رس سے گڑ بنانے پر پابندی تہتر سال پہلے سولہ اگست انیس سو اڑتالیس کو لگی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے بظاہر چینی کی پیداوار کو تحفظ دینے اور گنے کی فصل کے ضیاع کو روکنے کے لیے لازمی اجناس ایکٹ کے تحت گڑ کنٹرول آرڈر جاری کیا جس کی رو سے گنے کے کاشتکاروں کو اپنی فصل شوگر ملوں کو فروخت کرنے کا پابند بنا دیا گیا اور گڑ کنٹرولرز کو کسی بھی علاقے میں گڑ کی پیداوار کا جائزہ لینے اور اسے بنانے پر مکمل پابندی لگانے کا اختیار بھی دے دیا گیا۔
اس آرڈر کے جاری ہونے کے وقت سے سے پچھلے مہینے تک ان تہتر برسوں میں گڑ کی پیداوار پر عملاً پابندی عائد رہی اور کماد کے کاشتکار اپنی فصل سے منافع کمانے کے لیے شوگر ملوں کے دست نگر ہو گئے۔ ایسا نہیں کہ اس دوران میں کسانوں نے گڑ بنانا چھوڑ دیا تاہم یہ سب ڈھکے چھپے اور انتظامی کارروائی کے خوف تلے ہوتا رہا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے مطابق تاہم گڑ کنٹرول آرڈر پر کسی دور میں بھی سختی سے عملدرآمد نہیں کیا گیا اور گڑ بنانے والے کاشتکاروں کے خلاف کبھی کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ انیس سو اڑتالیس کا گڑ کنٹرول آرڈر دراصل انیس سو چھیالیس کے برطانوی قانون سے مستعار لیا گیا تھا اور اس کا مقصد ملک میں چینی کی پیداوار میں اضافے کو یقینی بنانا تھا۔
گنے کی پیداوار کے لیے مشہور اوکاڑہ کی تحصیل رینالہ خورد سے تعلق رکھنے مقامی صحافی محمد اشرف کا کہنا ہے کہ گنے کے کاشتکار اس قانون کے خاتمے کے بعد خاصے خوش اور پرجوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اوکاڑہ میں قائم دو شوگر ملوں نے ابھی تک کرشنگ کے انتظامات کا آغاز نہیں کیا تاہم گڑ بنانے کی اجازت ملنے کے بعد اب کسانوں کو اس کی فکر بھی نہیں۔ محمد اشرف کے مطابق رینالہ خورد میں کسانوں نے اپنے گھروں میں بیلنے لگا لیے ہیں اور گنے کے رس سے گڑ بنانے کا کام زور و شور سے شروع ہو گیا ہے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ عدالتی احکامات کے بعد ان پر معاشی خودمختاری کا ایک در کھلا ہے۔ اب وہ شوگر ملوں کے استحصالی رویے کا شکار ہونے کی بجائے اپنے اگائے ہوئے گنے سے خود گڑ بنائیں گے اور اسے نقد بیچ کر فوری منافع کمائیں گے۔
یاد رہے کہ شوگر ملیں کسانوں سے گنا ادھار اٹھاتی ہیں اور کئی کئی ماہ اور دفاتر کے ان گنت چکروں کے بعد ان کو ادائیگی کرتی ہیں۔ رینالہ خورد کے کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب شوگر ملوں نے ان کی فصل کی قیمت ادا کرنے میں دو دو سال کا عرصہ بھی لگایا۔ شوگر ملوں سے ملنے والی آمدن اتنی قلیل اور اتنی تاخیر سے ہوتی تھی کہ بعض اوقات کسان اپنی فصل کو چارے کے طور پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے۔ تاہم اب ایسا نہیں ہو گا۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شوگر ملز کو گنا بیچنے کی بجائے گڑ بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرنے سے کسان کو مالی لحاظ سے کتنا فائدہ ہو گا۔ مقامی ذرائع کے مطابق رینالہ خورد میں بنایا جانے والا عمدہ کوالٹی کا گڑ مارکیٹ میں ایک سو بیس سے ایک سو تیس روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے جبکہ ایک من گنے کا سرکاری ریٹ صرف دو سو پچیس روپے ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ من گنے کے رس سے ایک من گڑ تیار ہوتا ہے۔
یوں حکومت کے مقرر کردہ ریٹ کے مطابق کسان کو شوگر مل سے پانچ من گنے کے صرف بارہ سو روپے ملیں گے جبکہ اتنے ہی وزن کے گنے سے تیار کردہ گڑ مارکیٹ میں اڑتالیس سو سے لے کر باون سو روپے میں فروخت ہو گا۔ اس طرح شوگر مل کو گنا بیچنے کی مقابلے میں اس سے گڑ بنا کر فروخت کرنے پر کسان کو اڑتیس سو سے چار ہزار روپے زیادہ قیمت ملے گی۔ اور مارکیٹ رپورٹس کے مطابق کاشتکاروں کا گڑ اس قیمت پر بآسانی فروخت ہو رہا ہے۔
چینی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے اور شوگر مل مالکان کی من مانیوں کے بعد سوشل میڈیا پر بھی چینی کا بائیکاٹ کر کے گڑ استعمال کرنے کے ٹرینڈز زوروں پر ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ سفید چینی مہنگی بھی ہے اور تیاری کے دوران مختلف کیمیکلز کے استعمال کے باعث صحت کے لیے نقصان دہ بھی۔ تو پھر کیوں نہ مل کر اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ اس سے شوگر مل مالکان چینی کی قیمت کم کرنے پر بھی مجبور ہوں گے اور گڑ کے استعمال سے لوگوں کی صحت پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ گڑ بنانے کی اجازت ملنے کا ایک اور خوش آئند نتیجہ گندم کی پیداوار میں اضافے کی صورت بھی نکلے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گنے کی کرشنگ میں تاخیر کے باعث کماد کی کٹائی میں بھی تاخیر ہو جایا کرتی تھی جس سے گندم کی فصل موزوں ترین وقت ( اختتام اکتوبر تا اختتام نومبر ) گزر جانے کے بعد کاشت ہوتی اور اس کا نتیجہ کم پیداوار کی صورت میں نکلتا۔ اب اوکاڑہ کے کاشتکاروں نے گڑ کی تیاری کے لیے اپنی کماد کی فصل بروقت کاٹنے کے بعد گندم کی کاشت کا عمل شروع کر دیا ہے اور یوں علاقے میں گندم کی پیداوار پچھلے سال سے بھی بہتر ہونے کی امید کی جا رہی ہے۔
جب زرعی طبقہ خوشحال ہوتا ہے تو اس کی قوت خرید میں اضافے کے باعث کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آتی ہے اور صنعتوں کا پہیہ بھی خوب گھومتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو گڑ کی تیاری، بلا روک ٹوک خرید و فروخت اور اس کے زرعی شعبے پر مجموعی اثرات ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ دیہی اور شہری دونوں طبقوں کے لیے خوش آئند ہیں۔