بچپن کی کہانیوں میں جب کوئی نوجوان کسی مہم پر روانہ ہوتا تو جنگل کے راستے میں ملنے والا بزرگ منزل کی جانب رہنمائی کر کے اسے ایک نصیحت ضرور کرتا تھا۔ ”چاہے جیسی بھی آوازیں آئیں پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔ ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے“ ۔
شاہد وفا
سٹیو جابز نے انیس سو چھہتر میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایپل کمپنی قائم کی اور انیس سو پچاسی میں اسے اسی کمپنی سے ہتک آمیز انداز میں نکال دیا گیا۔
جدوجہد کے ان نو برسوں میں سٹیو جابز نے ٹیک جینئس سٹیو وازنیک کی مدد سے دنیا کو بدل کے رکھ دینے والی ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی۔ پھر بھی اسے یہ دن دیکھنا پڑا اور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اختلافات کے باعث اسے چلتا کیا۔
یہ ایک ہلا کے رکھ دینے والا جھٹکا تھا لیکن سٹیو جابز رکا نہیں اور اس نے چند سالوں میں ”نیکسٹ کمپیوٹر“ اور ”پکسار“ جیسی کمپنیاں لانچ کر دیں۔ اس نے ایپل سے باہر بھی کامیابیوں کے وہ جھنڈے گاڑے کہ انیس سو ستانوے میں اسے کمپنی کو دوبارہ جو ائن کرنے کی پیشکش ہوئی۔ اس کے بعد دو ہزار گیارہ میں اپنی موت سے دو ہفتے پہلے تک وہ ایپل کا سی ای او رہا اور دنیا کے لیے جدت اور ہمت کی نئی مثالیں قائم کیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر سٹیو جابز کمپنی سے نکالے جانے پر افسوس میں لگ جاتا اور ”کاش ایسے نہ ہوتا“ یا ”کاش ایسے کر لیتا یا ویسے کر لیتا“ جیسی باتیں سوچنے بیٹھ جاتا تو کیا وہ وہ سب کچھ حاصل کر پاتا جو اس نے اگلے چودہ برس کی قلیل مدت میں حاصل کیا؟ یقیناً نہیں۔
”کاش“ پر مبنی سوچ اس کے ذہن کو مفلوج اور بنی بنائی کمپنی سے نکالے جانے کا افسوس اس کے پاؤں شل کر دیتا۔ اور پھر وہ کبھی بھی آگے نہ بڑھ پاتا۔
یہ بات ہم سب کے سمجھنے کی ہے۔
انسانی ارادوں کو جتنا یہ ایک لفظ کاش کمزور کرتا ہے شاید ہی کوئی اور سوچ یا لفظ انسان کے سفر کو اتنا کھوٹا کرتا ہو۔ کاش پر توجہ مرکوز رکھنے والے نئے مواقع اور امکانات سے فائدہ اٹھانا تو دور کی بات ان کی موجودگی سے ہی بے خبر رہ جاتے ہیں۔ اور نتیجہ مزید محرومی کی صورت میں نکلتا ہے۔
بچپن کی کہانیوں میں جب کوئی نوجوان کسی مہم پر روانہ ہوتا تو جنگل کے راستے میں ملنے والا بزرگ منزل کی جانب رہنمائی کر کے اسے ایک نصیحت ضرور کرتا تھا۔
”چاہے جیسی بھی آوازیں آئیں پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا۔ ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے“ ۔
ہمیں شاید معلوم نہیں تھا کہ صرف نایاب پھول، خزانے یا شہزادی کی تلاش میں نکلنے والے نوجوان کے لیے ہی نہیں بلکہ زندگی کے سفر پر رواں دواں ہم سب کے لیے اس نصیحت پر عمل کرنا ضروری تھا۔ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا۔ ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔
لیکن ہم سمجھے ہی نہیں۔ اپنے اپنے پھول، خزانے یا خوابوں کی تعبیر کے سفر میں، پیچھے سے آنے والی ہر طرح کی آوازوں کو نظرانداز کر کے، ہمیں بھی آگے ہی آگے بڑھنا تھا۔ لیکن ہم نے یادوں اور پچھتاووں کی پکار پر مڑ کے دیکھنے کی عادت اپنا لی اور نتیجتاً انفرادی ہی نہیں اجتماعی زندگی میں بھی آگے بڑھنے کا عمل رک کے رہ گیا۔
پتھر ہوجانا اور کسے کہتے ہیں؟
ہمارے ارد گرد ہر دوسرا شخص کسی نا کسی غلط فیصلے، مشکل حالات یا کسی ”شاندار موقعے“ کو کھو دینے کا رونا روتا ہے۔ مثلاً ”کروڑوں کا یہ پلاٹ کسی زمانے میں چند ہزار روپے کا ملتا تھا۔ اگر والد صاحب بروقت فیصلہ کرلیتے تو آج ہم کروڑ پتی ہوتے“ ۔ ”اس ڈیل نے بہت نقصان پہنچایا۔ سب نے سمجھایا بھی تھا نہ کرو۔ اب تو سب کچھ تباہ ہو گیا۔ افسوس“ ۔ ”یار اس شعبے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ساری زندگی ضائع ہو گئی۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا“ ۔ یا پھر ”اگر قائد اعظم چند سال اور زندہ رہ جاتے تو پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا“ ۔
پچھتاووں کی یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ وگرنہ اپنے ارد گرد جس سے بات کرو وہ کسی نا کسی ایسے واقعے کو دل سے لگائے بیٹھا ہو گا جو نہ ہوتا یا ہوجاتا تو اب اس کی یا پوری قوم کی زندگی جنت ہوتی۔
کیا اچھی زندگی صرف ایک موقعے کی محتاج ہوتی ہے؟ کیا کوئی ایک غلط قدم ہمیشہ کے لیے ہر راستہ بند کر دیتا ہے؟ کیا کسی ایک فیصلے یا طرز عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکل مستقل ہوتی ہے؟ کیا ماضی و حال کی چند ناکامیاں مستقبل کو بھی ہمیشہ کے لیے تاریک کر دیتی ہیں؟
سٹیو جابز یا اس جیسے کسی بھی باہمت اور مستقل مزاج شخص کی جانب دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ وقت کتنا ہی ضائع ہو جائے چلتے رہنے والے منزل پر پہنچ ہی جاتے ہیں۔ اور جب منزل آ جائے تو سفر میں دیر کتنی لگی اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہتی۔
درحقیقت، دیر کبھی نہیں ہوتی۔ وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس دنیا میں کوئی نقصان ایسا نہیں جس کا مداوا نہ ہو سکے۔ انسان بس نئے سرے سے، بھرپور لگن سے، ایک بار پھر کوشش کرنے سے کتراتا ہے۔ تھک جاتا ہے۔ پریشان ہوجاتا ہے۔ حوصلہ ہار جاتا یا پھر کاہل ہوجاتا ہے۔
بس انہی کمزور لمحوں میں انسان دل مضبوط کر کے ایک کوشش اور کر لے تو رکے قدم پھر سے چل پڑتے ہیں اور پھر پہلے سے بھی بڑی منزلیں سر ہو جاتی ہیں۔ جہد مسلسل اتنا بڑا تریاق ہے کہ اہل علم کے نزدیک چلتے رہنا بذات خود ایک مثبت سرگرمی ہے۔