Shahid Wafa

ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں

ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں

جس سے کوئی خطا ہوئی ہو کبھی
ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں۔

یہ جون ایلیا صاحب کا شعر ہے۔ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ خون تھوکتے تھوکتے چلے گئے لیکن کسی شخص کو اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے نہ دیکھ پائے۔

شاہد وفا

بچپن میں ایک فارسی محاورہ سنا تھا۔ فارسی تو بھول گئی اس کا اردو مفہوم یاد رہ گیا کہ ”عمارت کی بنیادیں رکھتے وقت اگر اینٹیں ٹیڑھی لگ جائیں تو اس عمارت کو بھلے ہی آسمان تک اٹھا دو، وہ رہے گی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ”۔ یوں لگتا ہے اپنے معاشرے کی بنیادوں میں بھی اینٹیں ٹیڑھی لگ گئی ہیں۔

کوئی دریچہ ہوا کے رخ پر نہیں بنایا
میرے بزرگوں نے گھر سوچ کر نہیں بنایا۔

شاعر نے جانے کس گھر کا ذکر کیا تھا لیکن یہ بات اس گھروندے پر بھی صادق آتی ہے جس میں ہم سب مل کر لڑتے، جھگڑتے، الجھتے اور سسکتے تو ہیں بس ہنستے بستے نہیں۔ میری بات کو بھلے ہی نئی نسل کی جانب سے پرانی نسل کے طعنوں کا لایعنی جواب قرار دے لیں یا مایوسی پھیلانے کی بھونڈی کوشش لیکن میرے اس سوال کا جواب ضرور دیں کہ اگر ہماری بنیادوں میں کوئی کجی نہیں تو پھر ہمارے رویوں میں اتنی ٹیڑھ کیوں ہے۔

باقی ساری باتیں چھوڑ کر صرف اپنی غلطی تسلیم کر لینے کے وصف کو ہی لے لیں تو کیا آپ کو کبھی کسی ایسے شخص سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے جس نے دل سے کھل کر اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کیا ہو؟ جس نے وقت پر اپنی زیادتی کو تسلیم کیا ہو اس کے ازالے کے لیے کوشش کی ہو اور خود اپنے آپ کو برملا قصوروار ٹھہرایا ہو۔

جس سے کوئی خطا ہوئی ہو کبھی
ہم کو وہ آدمی ملا ہی نہیں۔

یہ جون ایلیا صاحب کا شعر ہے۔ وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ خون تھوکتے تھوکتے چلے گئے لیکن کسی شخص کو اپنی خطاؤں کا اعتراف کرتے نہ دیکھ پائے۔ اپنے اردگرد برپا ہونے والی محفلوں میں جھانکیے، احباب سے ملیے، اپنوں پرایؤں سے بات کر کے دیکھئیے۔ زیادہ سے زیادہ اگر کسی غلطی کا اعتراف آپ سنیں گے تو وہ ایسی غلطی ہوگی جس میں اعتراف کرنے والے کو خود کوئی نقصان اٹھانا پڑا ہو گا۔ ”یار بڑی غلطی ہوئی جو میں نے اس پر اعتبار کر لیا“ ۔ ”میری عقل پر پتھر پڑ گئے تھے جو فلاں کی بات مانی“ ۔ وغیرہ وغیرہ

آخر غلطی کا اعتراف اتنا ضروری کیوں ہے؟ اس سے ہوتا کیا ہے؟

اس سے ہوتا یہ ہے کہ باہمی تعلقات میں دراڑیں نہیں پڑتیں۔ دلوں میں دوریاں نہیں آتیں۔ جس پر زیادتی ہوئی ہو اس کی تشفی ہوجاتی ہے اور معاشرے میں انفرادی تعلقات سے لے کر اجتماعی احساسات تک ہم آہنگی، پیار اور محبت پروان چڑھتے ہیں۔

لیکن اس کے لیے چاہیے بڑا دل، ظرف اور اس بات کا علم کہ اپنا قصور مان لینے سے انسان چھوٹا نہیں پڑتا بلکہ اس کی عزت میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ خود رب کائنات کو معافی مانگ لینے والے بہت پسند ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ راہ سے بھٹکنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ لیکن جلال میں وہ اس وقت آتا ہے جب یہ خطا کا پتلا اپنی خطاؤں پر ڈٹ جائے۔ غلطیوں کو غلطیاں سمجھنا ہی چھوڑ دے اور ان پر اصرار کرتا چلا جائے۔ لیکن جیسے ہی انسان اپنی تقصیر پر معافی کا طلب گار ہوتا ہے رب کریم سب کچھ بھلا کر خطا کار کو اپنی رحمت کی آغوش میں لے لیتا ہے۔

اب ذرا سوچ کر بتائیں کیا ایسا ہی معاملہ انسانوں کے درمیان نہیں ہوتا؟ یہ بھی تو مشاہدے میں آتا ہے کہ اعتراف جرم کرنے والے شخص کے ساتھ عدالت بھی نرم رویہ اختیار کرتی ہے۔ دفتری معاملے میں سازباز کی بجائے کوتاہی تسلیم کر لینے پر انتظامیہ بھی ایک موقع اور دے دیتی ہے اور گھریلو جھگڑوں میں معافی کے طلبگار کو پھر سے سینے سے لگا لیا جاتا ہے۔ جس لمحے کوئی انسان دینی ہی نہیں دنیاوی معاملے میں بھی غلطی تسلیم کر کے اپنا سر جھکاتا ہے کائنات کی آفاقی حقیقتوں میں دراصل وہ سربلند ہوجاتا ہے۔

آزما کر دیکھیے گا۔

اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ آخر بطور معاشرہ ہم سوری کہنے یا معافی مانگنے کے وصف سے عاری کیوں ہیں۔ اس سوال کا جواب میرے نزدیک انہی ٹیڑھی اینٹوں کے نیچے دبا ہے جو ہماری بنیادوں میں لگائی گئی ہیں۔ گھٹن کے شکار اس معاشرے میں روز اول سے مکالمے کی فضا کو پروان نہیں چڑھنے دیا گیا۔ جب مکالمہ ہوتا ہے اور اختلاف رائے معمول کی بات سمجھی جاتی ہے تو دوران گفتگو کسی کا موقف درست اور کسی کا غلط بھی ثابت ہوتا ہے۔

جب یہ سلسلہ روز مرہ کی محافل کا معمول بن جائے تو رفتہ رفتہ انائیں کمزور پڑتی اور ظرف بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ لوگ دوران بحث محض لاجواب ہی نہیں قائل ہونا بھی سیکھتے ہیں اور جب یہ معاملہ سب کے ساتھ ہوتا ہے تو لوگوں کے لیے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور انہیں سدھارنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔

بے جا اکڑ اور مضحکہ خیز حد تک اس بدتہذیب رویے کی دوسری وجہ جو ہماری بنیادوں میں گندھی ہے وہ ہے تعلیمی اداروں کی سطح پر تربیت کا فقدان۔ تعلیمی ادارے سماج کے اجتماعی رویوں کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

مہذب ممالک میں بچوں کو ابتدائی جماعتوں میں دوسرے مضامین کے ساتھ ساتھ تہذیب بھی سکھائی جاتی ہے۔ انہیں مہذب معاشرتی رویوں کا درس دیا جاتا ہے۔ تھینک یو اور سوری کہنے کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ دھوکا دہی اور جھوٹ سے نفرت دلائی جاتی ہے اور اپنی غلطی کو برملا مان لینے کا حوصلہ دیا جاتا ہے۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں لہذا انہیں تسلیم کرنا اور سدھار لینا کوئی شرم کی بات نہیں۔ یوں سکول جانے والا تقریباً ہر بچہ یکساں طور پر اچھے آداب سے مزین ہو جاتا ہے اور پھر گھر ہو یا عملی زندگی وہ زیادہ تر معاشرے میں نرم رویوں کے فروغ کا ہی باعث بنتا ہے۔

جبکہ میرے علم کے مطابق ہمارے تعلیمی اداروں میں معاشرتی ادب آداب کا کوئی مضمون اب نہیں پڑھایا جاتا یا اس موضوع کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔ لہذا ہم لوگ انسان کو انسان بنانے والے سماجی آداب اور نفیس رویوں سے مجموعی طور پر عاری ہی رہتے ہیں۔ بچوں کو ابتدائی تعلیم کے دوران یہ سب کچھ سکھانا شروع کیجیے۔ پھر دیکھیے معاشرہ کیسے بدلتا ہے۔ ہم لوگ برے نہیں ہیں بس بنیادیں پھر سے تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

administrator

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *