شہدا اور غازیوں کے ساتھ ساتھ اگر سماج، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ میں کمال حاصل کرنے والی شخصیات کو بھی کبھی ”مطالعہ پاکستان“ میں قومی ہیرو کے طور پر پیش کر دیا جاتا تو کیا بگڑ جاتا؟
شاہد وفا
ہمارے بچپن میں جب بھی کسی بچے سے سوال کیا جاتا کہ ”بڑے ہو کر کیا بنو گے“ تو دو حصوں پر مشتمل ایک ہی جواب آتا۔ ”فوجی یا پائلٹ“ ۔
جو بچہ پائلٹ کہتا اس سے اگر مزید پوچھ لیا جاتا کہ کون سا پائلٹ۔ وہ جو پی آئی اے کا مسافروں والا جہاز اڑاتا ہے یا جنگی جہاز اڑانے والا پائلٹ۔ فوراً جواب آتا جنگی جہاز والا پائلٹ۔
اس موضوع پر آگے بڑھنے سے پہلے ایک ضمنی سی نشاندہی کرتا چلوں کہ بڑے ہو کر کیا بننے والا سوال زیادہ تر لڑکوں سے ہی کیا جاتا تھا۔ لڑکیوں کے بارے میں شاید معاشرہ یہ طے کرچکا تھا کہ وہ صرف شادی کے لیے پیدا ہوتی ہیں اور جس دن وہ اپنے گھر کی ہو جائیں گی تو ان کی تخلیق کا مقصد ویسے ہی پورا ہو جائے گا۔
خیر اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ آخر کیا وجہ تھی کہ اسی کی دہائی میں ہوش سنبھالنے والا تقریباً ہر لڑکا فوجی یا پھر پائلٹ بننے کا ہی خواب دیکھتا تھا۔
(اسی کی دہائی سے پہلے کے وقتوں میں نوجوانوں کے خواب کیا ہوا کرتے تھے یہ مجھے معلوم نہیں۔ تاہم اپنے سے دس بیس سال بڑے افراد کی ذہنی سطح دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی کوئی آئن سٹائن یا ابن رشد بننے کے ارادے نہیں باندھے ہوں گے۔ )
بہرحال ان ہی دو شعبوں میں دلچسپی کی دو ہی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک وجہ تو انگریزی کے لفظ تھرل میں ملتی ہے کہ جوان ہوتے لڑکوں کو ان دونوں میدانوں میں سنسنی اور دلچسپی کا بہت سا سامان نظر آتا تھا۔ فضاؤں میں اڑنا، جسمانی طاقت، پھرتی اور لڑائی بھڑائی میں ماہر ہوجانا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نت نئی بندوقوں سے دشمن پر گولیاں برسانا۔
دوسری وجہ ذرا غور طلب ہے۔ وہ اس لیے کہ اس نے ہمارے پورے معاشرے کی سوچ کے انداز اور کارکردگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
وہ وجہ یہ ہے کہ ہماری نسل کے ہر بچے کو نصاب حتی کہ کہانیوں کی کتابوں میں بھی جن قومی ہیروز سے متعارف کرایا جاتا تھا ان کا تعلق صرف ایک ہی شعبے سے ہوتا تھا۔ اور وہ تھا شعبہ سپاہ گری۔
مادر وطن کے تحفظ کے لیے اپنا زندگی لٹا دینے والے جانبازوں کے قومی ہیرو ہونے میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں۔ لوگ جیتے جی اپنا کام صرف ایمانداری توجہ اور لگن کے ساتھ ہی سرانجام دیتے رہیں تو اتنی بات ہی ان کو ممتاز کرنے کے لیے کافی تصور ہوتی ہے۔ اب ایسے میں اگر قوم کا کوئی بیٹا فرض کی ادائیگی میں جان ہی دے ڈالے تو ایسا عظیم شخص بلا شبہ قوم کا ہیرو اور قوم ہمیشہ اس کی احسان مند رہتی ہے۔
آنے والی نسلوں کو ایسے جری سپوتوں کے بارے میں آگاہ کرنا اور ان کے دل میں ان کا ادب احترام اور ان جیسا بننے کی خواہش پیدا کرنا دنیا کی ہر قوم کا طرز عمل رہا ہے اور یہ بالکل درست پالیسی ہے۔
لیکن شہدا اور غازیوں کے ساتھ ساتھ اگر سماج، معیشت، سائنس، ٹیکنالوجی اور فنون لطیفہ میں کمال حاصل کرنے والی شخصیات کو بھی کبھی ”مطالعہ پاکستان“ میں قومی ہیرو کے طور پر پیش کر دیا جاتا تو کیا بگڑ جاتا؟
دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔
کسی ملک کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کیا صرف سرحدوں پر سربکف جانبازوں کا کردار ہی کافی ہوتا ہے؟ کیا سرحدوں کے اندر عمل پیرا استاد، ادیب شاعر دانشور سیاسی رہنما سائنسدان ڈاکٹر انجنئیر کسان مزدور اور فنکاروں کا قومی ترقی و سلامتی کو یقینی بنانے میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا؟
زندگی کے ان مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی کارکردگی بھی تو قومی وجود کی تعمیر کرتی اور اسے توانا بناتی ہے۔ اور پھر جب یہی یک جان اور مضبوط قوم ضرورت پڑنے پر اپنی سپاہ کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ایسی فوج کو پسپا نہیں کر پاتی۔
تو پھر ہمارے یہاں علم و فنون اور سیاسی و سماجی شعبوں سے تعلق رکھنے والے مشاہیر کے کارناموں کو سکولوں کے نصاب میں وہ جگہ کیوں نہیں ملی جن کے وہ حق دار تھے۔
کیا وطن عزیز میں سیکیورٹی اداروں کے علاوہ ہر شعبہ بانجھ تھا اور ہمارا نصاب مرتب کرنے والوں کو کبھی کسی اور شعبے سے ایسی کوئی مثال نہ مل سکی جسے نصابی کتب میں فخر سے پیش کیا جاسکتا؟
یہ بات سرے سے ہی خارج از امکان ہے۔
ہم نے زندگی کے ہر میدان میں بڑی قد آور شخصیات پیدا کی ہیں۔ جدید علوم سے لے کر فن و ادب اور کھیل کے میدانوں میں معرکے سر کرنے والے ان گنت ہیرے۔ لیکن ان کی ویسی قدر نہ کی گئی جیسا ان کا حق تھا۔
ایسی نابغہ روزگار شخصیات کو بھی ہیرو کے طور پر متعارف کرایا جاتا تو ہمارے ذہنوں میں سوچ کے کئی نئے در کھلتے۔ ہمارے خوابوں کو وسعت ملتی اور ہم نت نئے شعبوں میں اپنی صلاحیتیں آزمانے کا حوصلہ پاتے۔ نتیجتاً ان شعبوں کو نئے زمانے کے خیالات اور صلاحیتوں سے مالامال تازہ دم انسانی وسائل میسر آتے رہتے اور معاشرہ ہر سمت میں ترقی کرتا۔
لیکن ایسا نہیں ہوا۔
کہتے ہیں دیر کبھی نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر اب بھی نصاب میں مذکورہ تبدیلیوں کا آغاز کر دیا جائے تو بس اتنی سی بات بھی ہمارے معاشرے پر طاری جمود کے تسلسل کو توڑنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔