Shahid Wafa

آخر ہم انساں ہی تو ہیں

آخر ہم انساں ہی تو ہیں

اگر آپ کو یہ سب خالی فلسفہ لگے۔ مذہب یا صوفی ازم سے متاثر ایسا فلسفہ جو آپ کو عزت نفس، اعتماد، یقین اور خودی جیسی قوتوں سے محروم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں دے گا تو پھر جدید علوم سے آراستہ نفسیاتی ماہرین کی بات ہی سن لیں۔

شاہد وفا

کیا آپ خود کو ہر لحاظ سے ایک مکمل انسان سمجھتے ہیں؟ ایسا انسان جو تمام بشری خامیوں اور کمزوریوں سے پاک ہو۔ اگر ایسا نہیں تو پھر آپ کو علم کامل تو حاصل ہو گا ہی۔ یعنی ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ مستقبل کی بھی ٹھیک ٹھیک تصویر ہر لمحہ آپ کی نظروں کے سامنے ہوتی ہو گی۔ چلیں یہ بھی ممکن نہیں تو پھر آپ عصر حاضر کے نہیں تو کم از کم اپنے حلقہ احباب کے سب سے شاندار اور بہترین انسان تو لازمی ہوں گے۔

جس سے بھی پوچھیں وہ ان تمام سوالات کا جواب یقیناً نفی میں ہی دے گا۔ اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے اور اگر ایسی کامل خصوصیات کا حامل ہونا کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں تو پھر ہر شخص ہر لمحہ بے چین اور بے سکون کیوں ہے۔

آپ شاید پوچھیں کہ ان سب باتوں کا ذہنی سکون سے بھلا کیا تعلق؟ میرے خیال میں تعلق ہے۔ بہت بڑا تعلق ہے۔

ہماری بہت سی ذہنی پریشانیوں کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ شعوری نا سہی لاشعوری طور پر ہم خود کو دوسروں سے برتر اور ہر لحاظ سے خود مختار سمجھتے ہوئے یہ یقین رکھتے ہیں کہ حالات و واقعات پوری طرح سے ہمارے بس میں ہیں۔

اب ظاہر ہے حقیقت اس سے مختلف ہی ہوتی ہے۔ ہم کسی نا کسی معاملے میں بہت بہتر صلاحیتوں اور خوبیوں کا مالک ہونے کے باوجود ان تمام کمزوریوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتے ہیں جو انسان ہونے کے ناتے ہماری تخلیق کا حصہ ہیں۔

لیکن لاشعوری طور پر ہی سہی خود کو اوپر بیان کردہ کمالات یا خوبیوں کا مالک سمجھنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم کسی غلط فیصلے یا کوتاہی یا شکست پر خود کو معاف نہیں کر پاتے۔

ہمارا ذہن ہمیں مسلسل یہ احساس دلاتا ہے کہ تم اور شکست؟ تم اور غلط فیصلہ؟ تم اور کوتاہی؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ تم سب سے بہتر تھے پھر شکست کیسے کھا گئے؟ تم تو اتنے جہاں دیدہ تھے پھر اتنا غلط فیصلہ کیسے کر گئے؟ تم تو اتنے مہذب اور رکھ رکھاؤ والے تھے پھر ایسی حرکت کیسے کر گئے؟ یا پھر یہ کہ تم تو اپنے دوست احباب میں سب سے زیادہ اہلیت رکھتے تھے۔ پھر سب سے پیچھے کیسے رہ گئے۔ تم تو ان سب سے زیادہ علم اور دانش رکھتے تھے۔ پھر بھی کسی نے تمھاری قدر نہ کی۔ تمھارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوا جس کے تم حق دار تھے۔ تمھارا مذاق بنا، تمھیں غلط سمجھا گیا، اور جس عزت و تکریم کے تم حق دار تھے تمھیں وہ درجہ نہیں ملا۔

ہم میں سے ہر کسی کو اوپر بیان کردہ سوچوں میں سے کوئی نا کوئی سوچ ضرور تنگ کرتی ہے۔ کہیں ہم خود کو کوستے ہیں اور کہیں دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ کبھی ہم خود کو معاف نہیں کر پاتے اور کبھی دوسروں کو ۔ وجہ وہی ایک کہ ہم خود کو ایک مکمل اور جامع شخصیت سمجھتے ہیں اور پھر ہمارا ذہن یہ تسلیم ہی نہیں کر پاتا کہ ہم جیسے اعلی انسان سے کوئی کوتاہی سرزد ہو سکتی ہے یا ہم جیسی شاندار شخصیت کے ساتھ کوئی برا سلوک بھی کر سکتا ہے۔

امکان ہے کہ زیادہ تر لوگ یہی کہیں کہ وہ تو خود کو کامل خودمختار یا دوسروں سے بہتر و برتر ہرگز تصور نہیں کرتے۔ بظاہر یہ بات درست ہے۔ وہ اس طرح کہ کوئی بھی شخص کسی جگہ بیٹھ کر پورے شعور کے ساتھ کبھی یہ سوچتا یا دعوی نہیں کرتا کہ وہ اپنی زندگی کے تمام حالات و واقعات پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ نہ ہی کوئی اپنے دل میں ہی سہی یہ اعلان کرتا پھرتا ہے کہ وہ سب سے بہتر ہے۔

لیکن پھر زندگی میں اپنی غلطیوں یا برے فیصلوں کے نتائج بھلا کر خود کو معاف نہ کرنے کا اور کیا مطلب بنتا ہے؟ یا تو اپنے علم اور اختیار کو محدود تسلیم کرتے ہوئے خود کو کوسنا چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر دوسرے لفظوں میں اس کا سیدھا سا مطلب یہی ہے کہ آپ خود کو ایسی ہستی تصور کرتے ہیں جس کے علم اور اختیار میں سب کچھ تھا اور پھر بھی اس نے غلط قدم اٹھایا۔

اسی طرح کسی کے ہتک آمیز رویے پر کڑھتے رہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ آپ خود کو اس سلوک کا حق دار نہیں سمجھتے۔ کیوں نہیں سمجھتے کیونکہ آپ خود کو ایک اعلی ہستی تصور کرتے ہیں۔

اب یہاں بھی معاملہ وہی ہے۔ آپ بڑائی کا دعوی بے شک نہ کریں لیکن اگر آپ کسی بے عزتی یا بدمزگی سے بھرپور واقعے کو بھلا نہیں پا رہے تو پھر اس کا مطلب تو یہی ہوا نا کہ آپ بھی اپنی انا کے اسیر ہیں۔

چلیں مان لیا آپ واقعی بہت سی خوبیوں اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ظاہر ہے ایسا ہونا کوئی ناممکن بات بھی نہیں۔ لیکن یہ تو ممکن ہے نا کہ آپ کی زندگی جن ناپسندیدہ حالات سے اچانک دوچار ہوئی، آپ ان مسائل سے نمٹنے کا تجربہ نہ رکھتے ہوں اور اپنی شخصیت، علم، تجربے اور مقام کے مطابق اقدامات نہ کرپائے ہوں۔ آخر ہم سب انسان ہی تو ہیں۔

یہ بات بھلے ہی کچھ عجیب سی لگے لیکن اگر ہم خود کو ہر معاملے میں ضرورت سے زیادہ سنجیدہ لینا چھوڑ دیں تو ہماری زندگی بہت آسان ہو جائے گی۔

یعنی اگر ہم خود کو ادنی مان لیں۔ اعلی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ عمدہ شخصیت اور اختیارات کے مالک ہیں تو پھر بھی ان خوبیوں کو سر پہ سوار نہ کریں اور شعوری طور پر عاجزی اختیار کرتے ہوئے سوچنا شروع کر دیں کہ ہمارا علم ناقص، ہماری سوچ محدود، ہماری صلاحیتیں معمولی اور ہماری شخصیت عام سی ہے اور یہ دنیا ہم سے بہتر انسانوں سے بھری پڑی ہے تو پھر دیکھیں کیسے کیسے بوجھ آپ کے سینے سے ہٹتے جائیں گے۔

ہار کا بوجھ، اچھا پرفارم نہ کرنے کا بوجھ، غلط فیصلوں کے پچھتاوے، وقت پر عمل نہ کرنے کا افسوس۔ ہتک و توہین کا غصہ، بے قدری کی اذیت، یہ سب بے معنی لگنے لگے گا۔

یہ سوچ آپ کو احساس دلائے گی کہ جب میں ہوں ہی ادنی، خام، معمولی، اور چھوٹا تو پھر مجھ سے ان سب کوتاہیوں کا سرزد ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ اور یہ کہ مجھ جیسے ادنی کو کسی نے ادنی سمجھ بھی لیا تو کیا قیامت آ گئی۔

اگر آپ کو یہ سب خالی فلسفہ لگے۔ مذہب یا صوفی ازم سے متاثر ایسا فلسفہ جو آپ کو عزت نفس، اعتماد، یقین اور خودی جیسی قوتوں سے محروم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں دے گا تو پھر جدید علوم سے آراستہ نفسیاتی ماہرین کی بات ہی سن لیں۔

جدید نفسیات بھی مختلف ذہنی اور جذباتی الجھنوں کے شکار افراد کو بطور انسان اپنی محدودات کو تسلیم کرنے، خود کو حد سے زیادہ سیریس نہ لینے اور دوسروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی معاف کرتے ہوئے زندگی میں آگے بڑھ جانے کا مشورہ دیتی ہے۔ یہ طرز فکر آپ کو خود اعتمادی سے ہرگز محروم نہیں کرتا بلکہ ان الجھنوں سے آزاد کرتا ہے جو آپ کی زندگی کی خوشیوں اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوتی ہیں۔ بس ذرا توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

آپ بھی ایسا کر کے دیکھیں صرف بہتر ہی محسوس نہیں کریں گے بلکہ آپ کو زندگی میں آگے ہی آگے بڑھنے اور عملی جدوجہد کے لیے نئی توانائی بھی میسر آ جائے گی۔

administrator

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *