Shahid Wafa

عورتوں کو چار دیواری میں رکھا جائے

عورتوں کو چار دیواری میں رکھا جائے

ہم تو بس یہی کہیں گے کہ یہ عورتیں پہلے سرعام گھوم پھر کر ہمارے جذبات میں بھونچال لانے کا سبب بنتی ہیں اور جب کچھ اوپر نیچے ہوجاتا ہے تو مظلومیت کے رونے روتی ہیں۔ اگر حکومت کو ان عورتوں سے زیادہ ہی ہمدردی ہو رہی ہے تو پھر ان کے کہیں آنے جانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔ بس۔

شاہد وفا

ہم پاکستانی مرد زندگی سے لطف اندوز ہونا جانتے ہیں۔ ہر وقت جوش سے بھرے رہتے ہیں۔ چودہ اگست ہمارا پسندیدہ ترین دن ہے اور اس دن آزادی کا جشن منانے کے لیے ہم بڑی انوکھی حرکتیں کرتے ہیں۔ جیسے ایک پہیے پر موٹر سائیکل چلانا اور باجے بجانا وغیرہ۔ لیکن اس سال شاید مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے بوریت کچھ زیادہ تھی لہذا ہم نے کچھ نیا کرنے کا فیصلہ کیا اور لاہور میں اپنی ہی ایک بیٹی کے جسم سے کھیل کر آزادی کے مزے کو دوبالا کر لیا۔

بس اتنی سی بات ہوئی اور اب ہر طرف ایک کہرام ہی مچ گیا ہے۔ جی انسانیت شرما گئی۔ درندگی کی انتہا ہو گئی وغیرہ وغیرہ۔ اب بھلا ہمارے ہوتے ہوئے درندوں کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور پھر ایسا پہلی بار بھی تو نہیں ہوا۔ ٹھیک ہے ایک نیا ٹچ تھا لیکن لڑکے بالے تو ملک بھر میں اس سے ملتے جلتے کام کرتے ہی رہتے ہیں۔

کچھ لوگوں کو جگہ کے انتخاب پر بھی مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کا قلعہ ہے اور مینار پاکستان اس قلعے میں ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں یہ سب کیوں ہوا۔ یعنی کہیں اور ہوجاتا تو پھر اعتراض نہ ہوتا؟ پتہ نہیں اس بات کا کیا مقصد ہے۔ یعنی بالکل ہی کنفیوز کر دیا ہے۔ پھر یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں ٹھیک اکیاسی سال پہلے قائداعظم نے مسلمانوں کی جان مال ایمان اور عزت کے تحفظ کی خاطر ایک علیحدہ ملک بنانے کا عزم کیا تھا۔ بالکل ٹھیک بات ہے۔ لیکن اس بات کا ہمارے جشن آزادی سے کیا تعلق ہوا؟ پتہ نہیں ہم لوگ کب اپنے ماضی سے باہر آئیں گے۔

ذرا سی بات تھی۔ اور اب تو یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وزیراعظم صاحب نے نوٹس لے لیا ہے۔ انہوں نے وزیراعلی صاحب سے اور وزیراعلی صاحب نے آئی جی صاحب سے رپورٹ مانگ لی ہے۔ انہوں نے آگے ایک کمیٹی بنا دی ہے۔ کہتے ہیں نادرا والے ہماری پرفارمنس کی ویڈیو دیکھ کر لڑکوں کے چہرے پہچانیں گے اور پولیس انہیں کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ بات کا بتنگڑ بنانا بھی کوئی ہم پاکستانیوں سے سیکھے۔

چلیں ایک لمحے کو مان لیا کہ ہم نے کچھ غلط سلط کر دیا ہے۔ مردوں سے ہوجاتا ہے۔ لیکن کیا سارا قصور ہمارا ہی تھا؟ سب ہمارے ہی پیچھے پڑ گئے ہیں۔ اس بے حیا لڑکی کو کوئی کچھ نہیں کہہ رہا۔ اس کی بے باکی کی کسی کو پروا نہیں۔ کیا اسے نہیں پتہ تھا کہ وہاں اتنا رش ہو گا۔ قوم کے غیرت مند جوان جتھوں کی شکل میں وہاں موجود ہوں گے۔ ایسے بے شرموں کی طرح منہ اٹھا کر چلی آئی۔

اب سنا ہے کہتی ہے کہ میں بھی قوم کی بیٹی ہوں۔ اپنے وطن کی آزادی کی خوشی میں وہاں چلی آئی تھی۔ ہے نا احمقانہ بات۔ بھئی خوشیاں منانا تو بیٹوں کا کام ہے۔ کبھی کسی نے دیکھا یا سنا کہ ہمارے ملک میں شریف گھرانوں کی بیٹیوں نے کبھی کھل کر خوشیاں منائی ہوں۔ دراصل وہ لڑکی ہی ٹھیک نہیں تھی۔ سنا ہے اس نے وہاں بھرے مجمعے میں ٹک ٹاک کے لیے ویڈیو بنانی تھی، توبہ۔

اب کوئی یہ نہ سوچنے بیٹھ جائے کہ اگر کوئی جگہ عورت کے لیے صرف اس وجہ سے غیر محفوظ بن جائے کہ وہاں مرد بڑی تعداد میں موجود ہیں تو لعنت ہے ایسے مردوں پر۔ اس طرح لعنت ملامت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

ہمارے خیال میں سارا قصور کیمرے والے موبائل اور انٹرنیٹ کا ہے۔ اتنا ہنگامہ سوشل میڈیا پر ہمارے جشن کی ویڈیو پھیلنے کے بعد ہی ہوا ہے نا۔ یہ سارے نوٹس بھی کلپ سامنے آنے کے بعد ہی لیے گئے ہیں۔ ورنہ پوری قوم تو ہمسایہ ملک میں اسلام کے اچانک غلبے کی خوشیاں منا رہی تھی۔ ادھر یہ ویڈیو وائرل ہوئی ادھر واویلا شروع۔ مغرب زدہ عورتوں کی چخ چخ بک بک الگ۔ طالبان کے ہاتھوں امریکہ کی شکست کا مزہ بھی نہیں لینے دیا گیا۔

خیر اب جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ ہم تو بس یہی کہیں گے کہ یہ عورتیں پہلے سرعام گھوم پھر کر ہمارے جذبات میں بھونچال لانے کا سبب بنتی ہیں اور جب کچھ اوپر نیچے ہوجاتا ہے تو مظلومیت کے رونے روتی ہیں۔ اگر حکومت کو ان عورتوں سے زیادہ ہی ہمدردی ہو رہی ہے تو پھر ان کے کہیں آنے جانے پر مکمل پابندی عائد کی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔ بس۔

administrator

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *