Shahid Wafa

آصف علی کی انگریزی اور ہم

آصف علی کی انگریزی اور ہم

دنیا پر راج کرنے والے یورپی ممالک کے فٹ بال پلیئر ہوں یا اولمپکس میں تمغوں کا ڈھیر لگا دینے والے چائنیز اتھلیٹ ان میں سے نہ کوئی انگریزی جانتا ہے اور نہ ہی جاننا چاہتا ہے۔ ان کے فین بھی ان کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تمغہ یا ٹرافی وصول کرتے وقت ان کی زبان یا چہرے پر اڑنے والی ہوائیاں نہیں ناپتے۔

شاہد وفا

آصف علی اپنے ایک پرانے انٹرویو میں بتا رہے ہیں کہ کس طرح انہوں نے انتہائی غربت کا انتھک محنت سے مقابلہ کیا اور چند نہیں بلکہ سالہا سال کے دھکوں کے بعد قومی کرکٹ ٹیم میں جگہ بنائی۔ پھر کارکردگی کی بنیاد پر آئی سی سی ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کے لئے منتخب ہوئے، مخالفین کی جانب سے مسلسل تنقید کا سامنا بھی کیا اور پھر افغانستان کے خلاف ایک اہم میچ کے اہم ترین اوور میں چار چھکے لگا کر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔ مین آف دا میچ قرار پائے۔ ایوارڈ لینے پہنچے۔ ایوارڈ وصول کیا اور پھر۔

اور پھر ان کی قوم نے اعتراض فرما دیا کہ ”آصف علی کو انگریزی ہی بولنی نہیں آتی“ ۔

یعنی کرکٹر کے چھکے اور مین آف دا میچ کی ٹرافی گئی بھاڑ میں۔ جیتا ہوا میچ اڑا ہوا میں۔ مغرب پر ہر دم تبرہ فرمانے والی قوم کے لیے اہم ٹھہری تو آصف علی کی انگریزی زبان سے ناواقفیت۔ بہت اچھے۔

خواتین و حضرات ہمارے ملک میں خط غربت سے نیچے رہنے والے طبقات کو اچھی تعلیم کے مواقع نہیں ملا کرتے۔ اگر اس بات کا علم نہیں اور کسی کی غربت و جدوجہد کا پاس بھی نہیں تو پھر آپ کو اتنا معلوم ہونا چاہیے کہ آصف علی کرکٹر ہے پبلک سپیکر یا پروفیسر نہیں۔ وہ اپنا کام جانتا ہے اور اس سے اسی کام میں کارکردگی کی توقع رکھنی چاہیے۔

دنیا پر راج کرنے والے یورپی ممالک کے فٹ بال پلیئر ہوں یا اولمپکس میں تمغوں کا ڈھیر لگا دینے والے چائنیز اتھلیٹ ان میں سے نہ کوئی انگریزی جانتا ہے اور نہ ہی جاننا چاہتا ہے۔ ان کے فین بھی ان کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تمغہ یا ٹرافی وصول کرتے وقت ان کی زبان یا چہرے پر اڑنے والی ہوائیاں نہیں ناپتے۔

دوسری طرف ہم ہیں جو آج تک ”فرفر انگریزی“ کے سحر سے نہیں نکل سکے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اس طرح کی تنقید کھلاڑی کے مورال پر کتنا اثرانداز ہوتی ہوگی۔ دنیا میں مارکیٹنگ، ٹیچنگ، کاونسلنگ یا میڈیا کے بعد کم ہی شعبے ایسے ہوں گے جہاں زبان یا ابلاغ کو اتنی اہمیت دی جاتی ہو۔ حتی کہ انٹرنیشنل جرنلسٹس کے لیے امریکہ کی اہم اور مشکل ترین ”ہیوبرٹ ہمفری“ فیلو شپ کے لیے بھی صحافیوں کی قائدانہ صلاحیت، علاقائی اور عالمی امور پر رائے اور ان کی خبروں کے موضوعات کو جانچا پرکھا اور مانا جاتا ہے ۔

”فرفر“ انگریزی بولنے والے صحافی اکثر ناکام ٹھہرتے ہیں اور تھوڑی بہت مہارت رکھنے والے مگر اہم ترین موضوعات پر بہترین رپورٹنگ کرنے والے صحافی چن لیے جاتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ جس منتخب امیدوار کی انگریزی کمزور ہو اسے فیلوشپ کے آغاز سے چھ ماہ پہلے امریکہ بلا لیا جاتا ہے تاکہ اسے امریکی لہجے اور انگریزی سے ضروری واقفیت دلا دی جائے۔ اور بس۔ یہ ہے انگریزی بولنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک کے زبان و بیان سے منسلک شعبے میں انگریزی زبان کی اہمیت کا عالم۔

دنیا والے کام دیکھتے ہیں سٹائل نہیں۔

یہ بات ہم کو اب سمجھ لینی چاہیے وگرنہ ہم کتنے ہی ذہین اور اپنے کام میں ماہر نوجوانوں کو خوامخواہ کے احساس کمتری میں مبتلا کر کے ان کے ساتھ ظلم کرتے رہیں گے۔ ایسا احساس کمتری صرف ذہنی اذیت ہی نہیں دیتا بلکہ انسان کو اس کے پیشے میں ناکام بھی کر دیتا ہے اور وہ نقصان صرف اس نوجوان کا نہیں بلکہ ملک کا بھی ہوتا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اور ہمارے انسانی وسائل کو اس میں مہارت ہونی چاہیے۔ لیکن ہر اس جگہ جہاں اس کی ضرورت بھی نہ ہو وہاں کام کرنے والے افراد کو اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنانا حماقت اور احساس کمتری کی بد ترین مثال ہے۔

پھر تنقید کرنے والے معاشرے کی اپنی انگریزی دانی کا یہ حال ہے کہ ہم خود بہت سی جگہوں پر غلط انگریزی استعمال کرتے ہیں۔ جیسے گٹر کے سوراخ یعنی Manhole کو Main hole کہنا موسم برسات یعنی Monsoon کو Moon Soon بولنا، Lower کے لیے Lowar کا تلفظ استعمال کرنا اور Convener کو Convenier کہنا عام سی بات ہے۔ حتی کہ ”پڑھے لکھے“ نیوز کاسٹرز اور اینکرز بھی یہی غلطیاں کرتے اور مسلسل دہراتے ہیں۔

ایسے انگریزی الفاظ جو ہم جیسے انگریزی دان بالکل غلط ادا کرتے ہیں ان میں سب سے مضحکہ خیز معنی ”Fee“ کا بنتا ہے۔ Fee انگریزی زبان کا لفظ اور اسم واحد ہے۔ اس کے معنی اجرت یا معاوضہ کے ہیں۔ جبکہ اس اسم واحد کی جمع ”Fees“ ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ہم اسم جمع ”Fees“ کو اسم واحد سمجھتے ہوئے اس کو مزید اسم جمع بنانے اور خود کو ”ماڈرن“ دکھانے کے چکر میں انگریزی لفظ ”فیسز“ استعمال کرتے ہیں جس کے معنی ہوتے ہیں ”بول و براز“ ”فضلہ“ اور ”گوبر“ ۔

اب ذرا تصور کیجیے کہ جب کوئی ”استاد“ اپنے طلبہ کو کہہ رہا ہوتا ہے (اور اکثر کہتا ہے ) کہ ”آپ سب کل تک اپنی فیسز جمع کرا دیجیے گا“ تو وہ تلفظ کے مطابق کیا چیز جمع کرانے کی درخواست کر رہا ہوتا ہے؟ اور اگر کہیں کسی روز طلبہ واقعی لفافوں میں بھر کے اپنی فیسز ”Feces“ لے آئے تو کیا صورتحال ہو۔

کاش کسی روز مغربی اقدار کے خلاف گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگاتے ہم انگریزی زبان کے بارے میں اپنے دائمی احساس کمتری سے ہی جان چھڑا لیں یا پھر آصف علی جیسے ہیروز کا تمسخر اڑانے سے پہلے خود درست انگریزی بولنا اور لکھنا سیکھ لیں۔

administrator

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *